میرے ایک محترم ساتھی کو بواسیر کے آپریشن کیلئے کسی صاحب نے بتایا کہ ڈسکہ گوجرانوالہ سیالکوٹ روڈ پر ایک قصبہ ہے وہاں کے ہسپتال سے آپریشن کرا لیں۔ آپ کی تکلیف ختم ہو جائے گی اور آپ جلد ہی صحت مند ہو جائیں گے۔ہمارے وہ محترم دوست ڈسکہ ہسپتال چلے گئے اور داخل ہو گئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ سرجن لاہور سے آتا ہے جس کے آنے میں دو دن باقی ہیں۔ ان کے آنے پر اس کا آپریشن ہوگا۔ ہسپتال میں قیام کے دوران آپریشن سے پہلے ان صاحب کی ملاقات وہاں با با جمعہ سے ہوئی جو صفائی کے عملہ سے تعلق رکھتا تھا اور آج کل اس کی ڈیوٹی آپریشن تھیٹر میں تھی ۔ بابا جمعہ نے ایک واقعہ اس طرح بیان کیا کہ عید کے دن تھے لہٰذا چھٹیاں تھیں ‘کوئی ڈاکٹر نہیں آرہا تھا بلکہ کمپاﺅنڈر، فی میل دونوں کی چھٹیاںتھیں اور قصبہ کے ہسپتال کوکون پوچھتا ہے ؟کسی کو کوئی ڈر نہیں تھا۔ میں اکیلا روزانہ ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتا (اس سٹاف میں مسلمان اور عیسائی سٹاف خاص طور پر فی میل اور عملہ صفائی کے دیگر لوگ غیر حاضر تھے۔)
ان ہی چھٹیوں کے دوران ایک کڑیل نوجوان کو تڑپتا ہوا ہسپتال میں لایا گیا۔ مریض اور ان کے لواحقین اس نوجوان کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر گم سم اور پریشان تھے۔ اس جوان کی تکلیف مجھ سے برداشت نہ ہو سکی اور میں نے آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں آپریشن تھیٹر میں گیا‘ تمام اوزار تیار کئے اور مریض کو آپریشن تھیٹر میں بلا لیا۔ اینتھیزیا بھی خود ہی کیا۔ میں نے آپریشن کر دیا اور اللہ رب العزت کے کرم سے آپریشن کامیا ب ہو گیا اگر مزید آدھا گھنٹہ گزر جاتا تو مریض چل بستا۔ سب لوگ حیران تھے کہ بابا جمعہ نے کمال کر دیا ہے اور مریض کو بچا لیا ہے۔ اس نوجوان کا نہ چارٹ بنا اور نہ اسے رجسٹر میں درج کیا گیا اس لئے کہ میں ان پڑھ ہوں۔ دوسرے دن مریض کو جس کا نام محمد افضل تھا ‘کو پانچ سات قدم چلایا گیا۔ چوتھے دن ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ حاضر ہو گیا۔ جب ڈاکٹر نے راﺅنڈ کیا تو مریض کا چارٹ ڈھونڈنے لگے ۔چارٹ تو بنا ہی نہیں تھا‘ ملتا کیسے؟میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ مریض کی جان بچانے کیلئے یہ جرا ¿ت میں نے کی ہے۔ لہٰذا میں ہر طرح کے برتاﺅ کیلئے تیار ہوں۔ مجھے سرزنش کرنے کے بجائے انعام دیا گیا۔ بابا جمعہ نے ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک اور مریض لڑکا جس کی آنکھ کے کونے میں کیکر کا کانٹا چبھا ہوا تھا ۔وہ بیچارہ کوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ اور سخت تکلیف میں تھا۔ بابا جمعہ نے وہیں وارڈ ہی کے ایک بیڈ پر اسے لٹایا اور اسے غور سے دیکھتا رہا جس آنکھ میں کانٹا چبھا ہوا تھا اس کی مخالف طرف کی ٹانگ اپنی گرفت میں کرلی اور گھٹنے سے نیچے آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنے لگے اور ایک دم اسی پاﺅں کے تلوے پر آن واحد میں اتنا زوردار مکا مارا کہ آنکھ کا کانٹا پتہ ہی نہ چلا کہ کہاں گیا اور بڑی مشکل سے ڈھونڈنے کے بعد کافی فاصلے پڑا ہوا ملا اور اس کی آنکھ سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ بابا نے فوراً زخم کا خون بند کیا اور پٹی کر کے انہیں رخصت دے دی۔
یہ تھے بابا جمعہ جو کہ کرسچین تھے پتہ نہیںا نہوں نے کن کن لوگوں اور مریضوں کا علاج اپنے طریقہ سے کیا ہو گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں